آرٹسٹ مدثر گُل کو، جن کا تعلق سرینگر کے پادشاہی باغ کے علاقے سے ہے، مقبوضہ کشمیر کے بد نام زمانہ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔مدثر نے دو روز قبل سرینگر کے ایک علاقے میں ایک واٹر ٹنک کے ساتھ بنائے گئے آہنی پُل پر ایک فلسطینی عورت کی تصویر بنائی تھی جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اس کے سر ڈھکنے کے رومال پر فلسطین کا جھنڈا بنایا گیا تھا۔
گرافٹی پر انگریزی میں لکھا گیا تھا کہ ’ہم فلسطین ہیں‘۔ جب کہ آہنی چبوترے پر فلسطین کا پرچم لہرایا گیا تھا۔
کشمیر میڈیا سروسز کے مطابق آرٹسٹ مدثر گُل کو بدنامِ زمانہ قانون کے تحت پاسا یا (پبلک سیفیٹی ایکٹ) کے تحت گرفتار کیا گیا ہے. اس کالے قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو اُس پرباضابطہ مقدمہ چلائے بغیر تین ماہ سے دو سال تک قید کیا جا سکتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق جس وقت مدثر یہ گرافٹی بنا رہے تھے وہاں جمع ہونے والے کشمیریوں نے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نعرے لگائے تھے۔ جمعے کو پیش آنے والے اس واقعے کے فوراََ بعد پولیس علاقے میں پہنچی تھی اور مدثر کو اُن کے گھر سے نکال کر اُس جگہ لے گئی تھی جہاں یہ گرافٹی بنائی گئی تھی اور اسرائیل مخالف نعروں پر مدثر سمیت 20 سے زائد کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کر کے لے گئی.
قبل ازیں کشمیر پولیس نے ہفتے کو علی الصبح جنوبی ضلع شوپیاں کے ایک مبلغ اور پیش امام سرجان برکتی کو ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق پیش امام کو عید کے روز شوپیاں کی ایک مسجد میں تقریر کرتے ہوئے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے.