مسلمان لڑکیوں سے زبردستی شادی کریں تا کہ ان کی نسل ختم ہو، “دی کشمیر فائلز” کے اثرات

ہندوستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے پنڈتوں پر بنائی جانے والی فلم “دی کشمیر فائلز” ان دنوں زیر بحث ہے، فاشسٹ‌مودی حکومت کی طرف سے اسپانسر ہونے والی اس فلم کو دیکھنے کے بعد دائیں‌بازو کے انتہا پسند ہندؤں کی طرف سے مسلم مخالف نعروں اور تقاریر کی کئی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں.

تازہ واقع ایک سنیما گھر میں فلم کے اختتام پر پیش آیا جہاں ایک انتہا پسند تقریر کرتے ہوئے ہندوؤں مردوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ وہ مسلمان خواتین سے زبردستی شادی کریں اور ان کے ساتھ بچے پیدا کریں تاکہ ملک میں مسلمانوں کی تعداد کم ہو.

‘دی کشمیر فائلز ”
ہندوستان میں رواں ماہ ریلیز ہونے والی فلم ’دا کشمیر فائلز‘ نے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا ہے اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز اور ٹویٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تنازع کسی بڑی لڑائی کا رخ بھی اختیار کرسکتا ہے۔

مسلم مخالف مودی حکومت کی سرپرستی میں بننے والی فلم ’دا کشمیر فائلز‘ مقبوضہ کشمیر میں جاری حریت پسندی اور 1990 کی دہائی میں بسنے والے ہندو پنڈتوں پر ہونے والے مبینہ حملوں کے گرد گھومتی ہے۔یہ فلم وویک اگنی ہوتری کی ہدایت کاری میں بنائی گئی ہے۔

کوئی بھی با شعور شخص فلم دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ فلم ایک خاص مقصد کے تابع ہے۔اور وہ مقصد ہے اکثریت کے جذبات کو مسلمانوں کے خلاف لگاتار مشتعل رکھنا۔ فلم میں کشمیری پنڈٹوں پر ہونے والے مظالم کی عکاسی کی گئی ہے۔

صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تشدد کے مناظر جس تواتر سے شامل کئے گئے ہیں اس کے پیچھے ڈائرکٹر کا مقصد کیا ہے۔رُلانے والے سین بھی رکھے گئے ہیں. الغرض فلم میں کشمیری مسلمانوں کو ظالم اور دہشت گرد ثابت کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی گئی ہے۔

جس میں ہدایت کار پوری طرح کامیاب ہے ۔ ظاہر ہے یہ اشتعال اور نفرت صرف مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف محدود نہیں رہیگا بلکہ یہ ہندوستان کے ہر اس حصے میں پھیلے گا جہاں مسلمان بستے ہیں.

فلم کے نمایاں اداکاروں میں انوپم کھیر، متھن چکرورتی اور پلوی جوشی شامل ہیں۔

ہندوستان میں ’آلٹ نیوز‘ نامی فیکٹ چیکنگ کی ویب سائٹ کے لیے کام کرنے والے صحافی محمد زبیر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے متعدد ویڈیوز پوسٹ کی ہیں، جن میں سینما گھروں میں ’دا کشمیر فائلز‘ فلم دیکھنے والوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف نعرے لگائے جارہے ہیں۔

ویڈیوز میں استعمال ہونے والی زبان اتنی غیرشائستہ ہے کہ ان ویڈیوز کو خبر کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔

محمد زبیر کی جانب سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں سینما گھر میں کھڑے ایک شخص کو دیگر لوگوں سے کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ’برائے مہربانی بالی وڈ کی فلمیں نہ دیکھیں، میں آپ سب سے درخواست کررہا ہوں، خصوصاً عامر، سلمان، شاہ رخ اور سیف کی فلمیں۔‘

اس شخص کی بات سن کر سینما میں بیٹھے دیگر لوگوں کو ’ویل سیڈ‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔

معتدل رویہ کے حامل متعدد ہندوستانیوں نے کہا ہے کہ اس فلم کو مسلمانوں اور اپوزیشن کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک اور ویڈیو میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مخالف جماعتوں اور مسلمانوں کے خلاف ایک سینما میں لوگ نعرے لگارہے ہیں اور ان کو قتل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔جس سے یہ تاثر بالکل درست محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت میں یہ فلم وہی کام کر رہی ہے جس کیلئے اسے بنایا گیا ہے.

واضح رہے آر ایس ایس کے تا حیات ممبر نریندر مودی اور انکی جماعت فلم ’دا کشمیر فائلز‘ کو سرکاری طور پر فروغ بھی دے رہی ہے۔فلم کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پروموٹ کرنے کی کوشش میں کئی صوبائی حکومتوں نے فلم کو ٹیکس فری کر دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہر محب وطن ہندوستانی کو یہ فلم دیکھنی چاہئے جس سے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ نہ دیکھنے والے غدا ر ہندوستان ہونگے.

متعدد ہندوستانی ریاستوں بشمول اتر پردیش، گوا، مدھیہ پردیش، ہریانہ، اترکھنڈ، گجرات اور کرناٹک میں فلم ’دا کشمیر فائلز‘ کو تمام ٹیکسوں سے چھوٹ دے دہی ہے۔

ایک حالیہ تقریب میں خود وزیراعظم نریندر مودی اس فلم کے خلاف بولنے والوں پر تنقید کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اس فلم نے ’سچ‘ کو منظر عام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔