محمد حسین گرتے پڑتے لولی لنگڑی وزارت لینے میں بھی بالآخر کامیاب ہو ہی گئے محمد حسین اور تحریک انصاف پلندری

محمد حسین اور تحریک انصاف پلندری

چار تحصیلوں ، دو حلقوں اور تین لاکھ آبادی کا ضلع جس کو ایک قبیلے کی نام سے منصوب کیا جاتا ہے میری مراد ضلع سدھنوتی سے ہے۔انسانی بنیادی ضرورتوں کے لحاظ سے صحت ، تعلیم ، انصاف سمیت بنیادی سڑکوں کے ڈھانچے کو اگر دیکھا جائے تو قدامت پرستی چیخ چیخ کر اس علاقے کے حکمرانوں ، بدمعاشوں اور پر تھوکتی ہے۔جب سے میں نے ہوش سمبھالا یہاں کے لوگ روز اول سے ڈاکٹر نجیب نقی کو کوستے رہے کہ یہی شخص ہماری پسماندگی کا زمہ دار ہے۔اس نعرے کا اتنا استعمال ہوا کہ لوگوں کے اس کو آخرکار سچ مان ہی لیا۔حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی سے چھلانگ لگا کر تحریک انصاف میں جانے والے امیدوار بزرگ رہنما محمد حسین کو عوام علاقہ نے بھرپور قوت کے ساتھ فتح یاب کیا۔آبادی کے کچھ حصے نے محمد حسین کی جیت کا جبکہ کچھ لوگوں نے ڈاکٹر نجیب کی ہار کا جشن منایا۔پلندری کے لوگوں کا موقف تھا کہ غریب پرور آدمی ہے ، عام لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے والا ہے ، اب عوامی نمائندہ عوامی مسائل کا حل کرے گا۔یہ کہانی انتخابات والی رات اور کم و بیش ایک ہفتے کی ہے لیکن کہانی کا دوسرا رخ اس کے بعد ظاہر ہوا۔ایک طرف کنواں تو دسری طرف کھائی۔

محمد حسین گرتے پڑتے لولی لنگڑی وزارت لینے میں بھی بالآخر کامیاب ہو ہی گئے۔ایم ایل اے کے بعد ضلعی ایڈمنسٹریٹر کے عہدے کی باری آئی تو محمد حسین بھول گئے کے وہ کس جماعت سے انتخابات جیتے ہیں۔ضلعی صدر تحریک انصاف سردار شاہد محمود کی جگہ خورشید صاحب کو جبکہ بلدیہ ایڈمنسٹریٹر کے لئے چوہدری افتخار کے نام طے پائے البتہ پی آر او کی نشست تحریک انصاف کے ایک نوجوان مبین خادم کے حصے میں آئی۔اس کے بعد محمد حسین کی وزارت ان کے بیٹے اور پرانے پیپلز پارٹی کے چند مفاد پرستوں کے ہتھے چڑ گئی۔کسی استاد کا تبادلہ کرنا ہو تو دس بیس ہزار نقدی دو ، چپڑاسی لگنا ہو تو ڈیڑھ سے دو لاکھ میلی کچیلی جیب میں ڈالو ، سترہویں اٹھارویں گریڈ کی پوسٹ کی اوقات ان کی ویسے بھی نہ تھی ، نہ ہے اور نہ ہی رہے گی۔محمد حسین صاحب سوتے رہے اور ارد گرد ٹولہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مال بنانے کے چکر میں لگا رہا۔

جہاں ہم سے جڑے اضلاع میڈیکل کالجز ، جامعات ، بگ سٹیز اور اچھی سفری سہولتوں کے لئے پختہ سڑکوں کی تعمیر کی تگ و دو میں ہیں وہاں ہمارے وزیر صاحب اور ان کا ٹولہ ماسٹروں کے تبادلوں ، چپڑاسی کی بھرتیوں ، سیاسی انتقام اور تحریک انصاف کے کارکنان کی تذلیل کرنے میں لگا رہا۔جس وقت ہر شخص ڈاکٹر نجیب نقی کو کوستا تھا تب اکثر و بیشتر یہ کہتے تھے کہ محمد حسین جیسے عوامی آدمی کو ہم نے ضائع کر دیا۔ہائے پشیماں کا پشیماں ہونا۔۔۔۔کچھ روز قبل تو اقتدار کے نشے میں دھت محمد حسین کو پارٹی کی تنظیم سازی بھی نئے سرے سے کرنی پڑی جس کو جنرل سیکرٹری تحریک انصاف آزاد کشمیر نے غیر آئینی قرار دے دیا۔محمد حسین کے پی آر او نے بھی استعفی دے کر خود کو اس گندے کیچڑ سے الگ کر دیا ہے۔محمد حسین صاحب سے پھل دار درخت کی امید تھی لیکن وہ تو سروں کا درخت ثابت ہوئے جس کی نہ چھاوں ہے اور نہ سایہ ،پھل تو دور کی بات ہے۔

تحریک انصاف کے نظریاتی ہوں یا محمد حسین کے مفاداتی دونوں گروہوں کا مقصد اپنے اپنے حصے کی نوکریاں ، سکیمیں ، ٹھیکے اور سیاسی ایڈجسٹمنٹس ایک دوسرے کے سامنے لے کر آئے نہ کہ عوامی مسائل اس کی وجہ بنے۔دوستو ! ہمارے مسائل کا حل موجودہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہے۔ہم جس کو بھی اپنا نمائیندہ بنا کر اسمبلی میں بھیجیں گے یقین مانیں وہ محمد حسین سے بھی زیادہ خونخار بھیڑیا نکلے گا جو ہماری نسوں میں دوڑتے خون کو چوسنے میں تن من دھن کی بازی لگانے سے دریغ نہیں کرے گا۔ان گماشتوں اور مفادپرستوں سے مانگ کر کچھ نہیں ملنے والا ، دوسرا طریقہ چھیننے کا ہے۔دو قدم آگے بڑھئے اور ہاتھ گریبان میں ڈالئیے ، موجودہ وقت اور حالات تقاضہ کرتے ہیں کہ جس کا ہاتھ گریبان میں ہو گا اس کو روکھی سوکھی مل ہی جائے گی جو بیچارہ مانگے گا وہ بھوکا رہ جائے گا۔

افراز رشید