بلدیاتی الیکشن کی آمد اور اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ! کیا کہتے ہیں‌نمائندے

8 نومبر 2022
خصوصی انٹرویو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حمیرا طارق
محمد افسر خان آزاد امیدوار برائے ڈسٹرکٹ کونسلر سدہنوتی

آزاد کشمیر میں تیس سال بعد بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کی کوششوں نے عوام کے دلوں میں طمانیت کے تاثرات پیدا کر دئیے ہیں۔ الیکشن کے بعد پانچ سال تک مسلسل غائب رہنے والے ایم ایل ایز کی راہیں تکتی آنکھیں بھی چمک اٹھی ہیں۔ اور امید کی ایک کرن جاگی ہے کہ شاید اقتدار کے نچلی سطح پر منتقل ہونے سے عام آدمی کے دیرینہ مسائل کسی حد تک حل ہوں۔ بلاشبہ بڑے سیاسی رہنما اس سے ناخوش ہیں اور مختلف حیلے بہانوں سے الیکشن ملتوی کرانے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ کبھی سیکورٹی ایشوز کو بہانہ بنایا جا رہا ہے اور کبھی فورسز کی کمی کو۔ خدانخواستہ یہ بھی ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا جائے۔ لیکن امید کرسکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا اور یہ اہم ترین جمہوری عمل اپنے وقت پر مکمل ہو گا۔ بہرحال خدشات اپنی جگہ لیکن سیاسی سرگرمیوں میں خوب چہل پہل نظر آ رہی ہے اور بہت سے امیدوار بڑھ چڑھ کر اس سیاسی اور جمہوری عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہر طرف سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے۔ اور اسی سلسلے میں ہم نے ڈسٹرکٹ سدہنوتی کے ڈسٹرکٹ کونسل کے آزاد امیدوار ریٹائڑد پرنسپل سردار محمد افسر خان سے جو یونین کونسل رائیکی گڑالہ سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا۔ سردار محمد افسر خان کا تعلق شعبہ درس و تدریس سے رہا۔ آپ نے بحیثیت لیکچرار انٹر کالج سہنسہ اور تراڑکھل، بحیثیت پروفیسر راولاکوٹ، داتوٹ، میرپور ، ڈڈیال، بلوچ اور بحیثیت پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج تراڑکھل اپنی خدمات سر انجام دیں۔ سردار محمد افسر خان سے ہونے والی گفتگو اپنے قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔


ادارہ : اپنے ابتدائی تعلیمی اور تدریسی کیرئیر کے بارے میں بتائیں۔

محمد افسر خان : میں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے ہی پرائمری سکول گڑالہ سے حاصل کی۔ انٹر کالج تراڑکھل سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کا میں پہلا وائس پریذیڈنٹ رہا ہوں۔ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج راولپنڈی اصغر مال سے گریجویشن کی ڈگری لی۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فزیکل ایجوکیشن میں ماسٹرز ڈگری لی۔
اس کے بعد پی ایس سی کر کے لیکچرار تعینات ہوا۔ بحیثیت لیکچرار سہنسہ اور تراڑکھل میں اپنی خدمات سرانجام دیں۔ اس کے بعد بحیثیت پروفیسر راولاکوٹ، داتوٹ، میرپور، ڈڈیال اور بلوچ میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے بعد بطور پرنسپل ڈگری کالج تراڑکھل اپنی خدمات سرانجام دیتا رہا اور یہیں سے ریٹائرڈ ہوا۔

(ادارہ ) : سیاست کی طرف آنے کا فیصلہ کیونکر کیا؟

(محمد افسر خان) : پس ماندہ طبقے کی خدمت کا جذبہ، معاشرتی نا انصافیوں کے خاتمے کی خواہش اور اپنے لوگوں کے لئے کچھ کرنے کی لگن نے مجھے سیاست میں آنے پہ مجبور کیا۔
(ادارہ ) : اگر آپ یہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو آپ کی اولین ترجیحات کیا ہوں گی؟

(محمد افسر خان) : نادار اور یتیم بچوں کو تعلیمی سہولیات کی فراہمی میری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے بھرپور کوشش کروں گا۔ پوری کوشش کروں گا کہ بلا تفریق ہر ایک کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنا سکوں۔

(ادارہ) : آپ نے جماعتی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے بجائے بحیثیت آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟

(محمد افسر خان) : پارٹی ٹکٹ لینے سے اکثر اوقات انسان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ پارٹی ٹکٹ کی آفر تھی لیکن ہر چیز سے بالاتر ہو کر بلا تفریق عوامی خدمات سر انجام دینا چاہتا تھا اسے لئے پارٹی ٹکٹ کی آفر قبول نہیں کی۔

(ادارہ) : آپ شعبہ تعلیم و تدریس سے وابستہ رہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں پرائمری لیول پر بچوں پہ خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور ہر طرح کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں سچوئیشن اس کے برعکس ہے۔ ہمارے ہاں گورنمنٹ کے پرائمری سکولز سب سے زیادہ نظر انداز کیے جاتے ہیں۔ سکولوں کی بلڈنگز انتہائی دگرگوں حالت میں ہیں، فرنیچر نہیں، واش رومز نہیں ہیں ، بجلی ، پنکھے کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے۔ اگر آپ یہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو کیا ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ آپ پرائمری سیکٹر کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے اور حکام بالا تک اس معاملے کو پہنچائیں گے؟

(محمد افسر خان) : میں خود بھی اس حوالے سے آگاہی رکھتا ہوں۔ اور پرائمری سکولوں کی حالت زار دیکھ کر دل بہت رنجیدہ ہوتا ہے۔ یہ میری اولین ترجیحات میں شامل ہو گا کہ پرائمری سکول سیکٹر کی بہتری کے لئے خود بھی کوشش کروں اور حکام بالا تک اس معاملے کو پہنچا سکوں۔ تا کہ پرائمری سکولوں کی محرومیوں کا ازالہ کر کے بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ جہاں بلڈنگ کی ضرورت ہے وہاں بلڈنگ فراہم کرنے کی کوشش کروں گا۔ جہاں فرنیچر کی ضرورت ہے وہاں فرنیچر کی دستیابی کو یقینی بنائیں گے۔

(ادارہ) : ہماری یونین کونسل رائیکی گڑالہ کی نئے سرے سے حد بندی کی گئی ہے۔ زمینی رابطے کے لحاظ سے رائیکی اور گڑالہ ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر واقع ہیں۔ آپ اس زمینی فاصلے کو کس طرح مینیج کریں گے؟
(محمد افسر خان) : میری خصوصی ترجیح ہو گی کہ میں اس زمینی فاصلے کو کم کرنے کی کوشش کروں۔ اس مقصد کے لئے میں جنجال ہل سے نمب تک عرصہ دراز سے زیر تکمیل روڈ کو پختہ کرانے کی کوشش کروں گا۔ تا کہ دونوں علاقوں کی باہمی آمد و رفت میں بہتر سہولت میسر آ سکے ۔

(ادارہ) : اگرچہ شرح خواندگی میں خواتین مردوں سے آگے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں خواتین کا مختلف شعبہ جات بالخصوص سیاست میں رحجان بہت کم دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان بلدیاتی الیکشنز میں بھی خواتین کی بہت کم تعداد حصہ لے رہی ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کی کیا وجوہات ہیں اور اس مائینڈ سیٹ کو کس طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

(محمد افسر خان) : یہ ایک حقیقت ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں بہترین ذہنی صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہیں۔ اور وہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے بروئے کار لا کر بہترین خدمات سر انجام دے سکتی ہیں۔ بہتر موٹیویشن اور خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کر کے اس مائینڈ سیٹ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

(ادارہ) : یہ انتخابات تیس سال کے بعد دوبارہ ہونے جا رہے ہیں۔ اگرچہ آپ اس وقت سیاست میں نہیں تھے لیکن ہمارے لوگ بڑھ چڑھ کر سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ آپ تیس سال پہلے کے الیکشن میں اور آج کے الیکشن میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟

(محمد افسر خان) : آج بلدیاتی امیدوار کے لئے میٹرک کی شرط لازمی قرار دی گئی ہے جو کہ نہایت خوش آئیند ہے جبکہ تیس سال پہلے کے بلدیاتی انتخابات میں ایسا نہیں تھا۔ آج امیدواروں کی کثیر تعداد بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے لہذا پہلے کی نسبت آج مقابلہ بھی زیادہ سخت ہے ۔

(ادارہ) : تیس سال پہلے کے انتخابات میں اور آج کے انتخابات میں عوام کی سوچ میں کیا تبدیلی محسوس کر رہے ہیں؟

(محمد افسر خان) : آج کا ووٹر زیادہ با شعور ہو چکا ہے۔ آج کا ووٹر اپنے ووٹ کا استعمال اپنی آزادانہ مرضی سے کرتا ہے۔ عوام کی سوچ میں بہت تبدیلی آ چکی ہے۔ موجودہ دور کے عوام روایتی اور گھسے پٹے سیاسی نظام سے تنگ آ چکے ہیں۔اور نئے چہروں کی تلاش میں ہیں جو کہ حقیقی معنوں میں عوام کے مسائل کو حل کر سکیں۔

(ادارہ) : ہمارے سابق وزیراعظم عبدالقیوم نیازی نے ہجیرہ میں اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ “لوگ جب میرے پاس درخواستیں لے کر آتے ہیں تو مجھے غصہ چڑھ جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہاں ہمارے بندے کو ہرا دیا ہے اور درخواستیں لے کے آ جاتے ہو۔ پھر میں کہتا ہوں کہ برادری سمجھ کے آ رہے ہیں تو چلو دستخط کر ہی دیتے ہیں”۔ آپ کو اگر موقع ملتا ہے تو آپ اپنے ووٹرز کو اہمیت دیں گے یا پھر برادری سمجھ کر کسی کی مدد کر دیا کریں گے۔ یا پھر ہم آپ کے روپ میں ایک حقیقی عوامی نمائندے کو دیکھ سکیں گے جو اپنے ووٹر اور اپنی برادری کی سوچ سے بالاتر ہو کر حقیقی معنوں میں عوامی خدمات سر انجام دے گا؟

(محمد افسر خان) : میں نے جماعتی ٹکٹ کی پیشکش بھی اسی لیے مسترد کی ہے کہ میں ہر چیز سے بالاتر ہو کر صرف عوامی خدمات سر انجام دینا چاہتا ہوں۔ میں برادری اور ووٹر کی سوچ سے بالاتر ہو کر بلا تفریق عوام کی نمائندگی کروں گا اور ہر ایک کے لئے میرے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے اگرچہ کوئی میرا ووٹر ہے یا نہیں۔

(ادارہ) : مختلف حیلے بہانوں سے الیکشن ملتوی کرانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ اگر فورسز کی کمی یا سکیورٹی ایشوز کو بہانہ بنا کر الیکشن ملتوی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو آپ لوگوں کی کیا حکمت عملی ہو گی؟
(محمد افسر خان) : امید ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ اس جمہوری عمل کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جائے گی اور اس جمہوری عمل کو آگے بڑھنے دیا جائے گا۔ لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم پورے آزاد کشمیر میں احتجاج کریں گے اور عدالت سے رجوع کریں گے۔ اور اس وقت تک اپنی تگ و دو جاری رکھیں گے جب تک کہ یہ جمہوری عمل مکمل نہیں ہو جاتا۔

(ادارہ) : اپنے قارئین کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

(محمد افسر خان) : اپنے قارئین سے کہنا چاہوں گا کہ حق رائے دہی آپ کا بنیادی حق اور اہم فریضہ ہے۔ لہذا اپنے ووٹ کا استعمال ضرور کریں۔ اور اس امیدوار کا انتخاب کریں جو کہ صحیح معنوں میں عوامی خدمات سر انجام دینے کا اہل ہو۔

اس کے ساتھ ہی آزاد بلدیاتی امیدوار محمد افسر خان کے ساتھ خصوصی نشست برخاست ہوئی۔