آزاد جموں و کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا ممکنہ التواء: تو کیا یہ ساری تیاریاں محض چندہ اکٹھا کرنے کے لیے تھیں: از جلال الدین مغل

آزاد جموں کشمیر میں 27 سال بعد بلدیاتی انتخابات کا ماحول بنا اور لگ بھگ 31 سال بعد انتخابات ہونے جا رہے ہیں- مگر وہی قوتیں انتخابات ملتوی کروانے نے کے لیے پھر سے متحرک ہیں جو 31 سال تک اس کی راہ میں رکاوٹ رہیں-

انتخابی عمل کے تمام مراحل مکمل ہو چکے- فہرستیں مکمل، کاغذاتِ نامزدگی کی وصولی، جانچ پڑتال، امیدواروں کی دستبرداری، جماعتی ٹکٹوں کی تقسم، انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ تک ہو چکی- پولنگ میٹریل کی پرنٹنگ اور پولنگ عملے کی مامورگی پر کام جاری ہے-

اب سیکیورٹی صورتحال پر کھیلا جا رہا ہے- وفاقی حکومت سیکورٹی دینے کو تیار نہیں- اپوزیشن جماعتیں پنجاب اور کے پی کے پولیس کی نگرانی میں انتخابات کو تسلیم کرنے سے منکر ہیں- حکومت بظاہر مرحلہ وار انتخابات کرانے کو تیار مگر اندرون خانہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ انتخابی التواء پر متفق ہے- اب کہیں کہیں سے موسمی شدت، حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں پر بھی اعتراض اٹھ رہے ہیں-

27 سال قبل بھی انتخابات اسی مرحلے پر، ان ہی حالات میں ملتوی ہوئے تھے اور پھر طویل عدالتی جنگ کے بعد یہ سلسلہ جڑا اور تیاریاں یہاں تک پہنچنا ممکن ہوئیں- آج اگر یہ انتخابات بھی ملتوی ہو گئے تو مزید 31 سال انتظار کرنا پڑے گا- کیونکہ جو لوگ انتخابات ملتوی کروانے پر سرگرم ہیں ان کے پاس اس التواء کو طویل کروانے کے سو راستے. اور ہزار جواز موجود ہیں- کیونکہ ان کا اتفاق ہے کے انتخابات میں حصہ لینا صرف ان کا اور ان کی اولادوں کا حق ہے- اور ان کے نزدیک بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقل ان کی خاندانی سیاست کی موت ہے-

اعتراض یہ ہے کہ موجودہ ایکٹ میں خرابیاں ہیں اس ان کو دور کیے بغیر انتخابات ممکن نہیں- سوال یہ ہے کہ یہ خرابیاں ممبران اسمبلی نے کرنی ہیں یا عام آدمی نے؟ یہ تو ممبران اسمبلی کی ناکامی ہے جو 31 سال میں ڈھنگ کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ تک نہیں بنا سکے- تو پھر ان کی ناکامی کی سزا عام آدمی کو کیوں دی جائے-

اعتراض یہ ہے کہ حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں میں خرابیاں ہیں- تو سوال یہ ہے کہ یہ خرابیاں کس نے دور کرنا تھیں؟ الیکشن کمیشن نے ان تیاریوں کے لیے جتنی بھی میٹنگز طلب کیں ان میں سیاسی جماعتوں کے سربراہان، نمائندگان اور ممبران اسمبلی شامل تھے- عام آدمی کو تو کبھی رسائی تک حاصل نہیں تھی- تو ان خرابیوں کی بروقت نشاندہی کیوں نہیں ہوئی؟

اعتراض یہ ہے کہ سیکورٹی صورتحال ٹھیک نہیں خون خرابے کا خدشہ ہے- تو سوال یہ ہے کہ کیا خون خرابہ اسمبلی انتخابات میں نہیں ہو تا رہا؟ کیا ایک مرتبہ بھی اسمبلی انتخابات اس وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے؟ فرق صرف اتنا ہے کہ ان انتخابات میں سیاسی ایلیٹ نے حصہ لینا ہوتا ہے اور یہاں عام آدمی انتخابات میں حصہ لے رہا ہے-

بالفرض انتخابات تین ماہ کے لیے ملتوی بھی ہو جاتے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کہ اسمبلی میں بیٹھے لوگ برطانیہ اور امریکہ کے بلدیاتی نظام کے ہم پلہ نظام کا خاکہ تیار کر لیں گے اور اسے نافذ کر لیں گے؟ حالانکہ گذشتہ 31 سال کی ان کی کارکردگی اور کارستانی سامنے ہے-

اس مرحلے پر انتخابات کا التواء بد قسمتی ہو گی- اگر پورے آزاد جموں و کشمیر میں ایک ہی دن انتخابات ممکن نہیں تو مرحلہ وار انتخابات پر کیا اعتراض؟ ڈویژن کی سطح بھی ممکن نہیں تو ضلع کی سطح پر مرحلے وار انتخابات ہو سکتے ہیں- محض اس وجہ سے انتخابی عمل ملتوی نہیں ہو سکتا کہ کوئی سیاسی جماعت اس پر متفق نہیں- جنہوں اتفاق نہیں ان کے پاس بائیکاٹ کا حق موجود ہے- جن امیدوار کے پاس ان جماعتوں کے ٹکٹ موجود ہیں وہ ٹکٹ سے دستبردار ہو کر آزادانہ حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیں مگر یہ عمل ہر حال میں مکمل ہونا چاہیے-

یہ درست کہ پہلی مرتبہ کو نظام پرفیکٹ نہیں ہو سکتا اس میں کمی کوتاہی اور خامی ہمیشہ موجود ہوتی ہے اور اس درستگی اور بہتری وقت کے ساتھ ساتھ ہو سکتی ہے مگر کسی عمل سے محض اس لیے فرار کی راہ نہیں اپنائی جا سکتی کے آپ اس سے اتفاق نہیں رکھتے-

سیاسی جماعتیں اور حکومت الیکشن کے التواء پر بظاہر متفق ہیں- غالب امکان یہی ہے کہ وہ کامیاب بھی ہو جائیں- اب ذمہ داری ان 11 ہزار کے لگ بھگ امیدوار پر عائد ہوتی ہے کہ وہ انتخابی التواء کی صورت میں اپنے حامیوں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئی اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ جاری شدہ شیڈول کے مطابق انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے- اگر اس مرتبہ بھی مافیا الیکشن ملتوی کروانے میں کامیاب ہو گیا تو پھر دوبارہ یہ ماحول بننے میں 31 سال نہیں تو 31 ماہ ضرور لگیں گے-

حکومت اور سیاسی جماعتوں کو بھی سنجیدگی دکھانا ہو گی- یہ سمجھنا ہو گا کہ اب انتخابات کو مزید التواء میں رکھنا ان کے لیے اتنا آسان نہیں ہو گا- اس مرتبہ انتخابی عمل میں حصہ لینے والے 11 ہزار کے لگ بھگ امیدوار میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جو پڑھے لکھے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جانتے ہیں- ان کو الو بنانا اب شائد اتنا آسان نہ ہو-

اگر حکومت و اپوزیشن انتخابات کروانے میں سنجیدہ نہیں تھے تو پھر یہ سارا عمل کیا صرف سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے رچایا گیا؟