حمیرا طارق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اضطراب
“آج آپ یاد بے حساب آئے”
تیس نومبر میری زندگی کا وہ المناک دن ہے جس دن ہم نے ایک مخلص، بے لوث، مشفق، مہربان اور ایک عظیم شخصیت اپنے دادا جان حاجی محمد خان کو کھو دیا۔ اس دن ہم نہ صرف اپنے خاندان کی ایک عظیم ہستی سے محروم ہوئے بلکہ ہم بے لوث محبت ، شفقت اور دعاؤں کے اس حصار سے بھی محروم ہو گئے جو ہمارے ارد گرد ہمارے دادا جان کی وجہ سے موجود رہتا تھا۔ اس دن دادا ابو پانچ روز کی مختصر علالت کے بعد اس دنیا سے چلے تو گئے مگر اپنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ گئے ہیں جسے ہم کبھی پورا نہیں کر سکتے۔ اب ہمارے پاس ان کی صرف یادیں ہی رہ گئ ہیں جو ہمارے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔
یوں تو ہر انسان کا بچپن بہت خوبصورت ہوتا ہے مگر جنہیں اپنے بچپن میں میرے دادا ابو اور دادو جیسی عظیم بزرگ شخصیات کا سایہ نصیب ہو ان کے بچپن جیسا خوبصورت بچپن کسی اور کا نہیں ہو گا۔ دادا ابو کی شفقت کے زیر سایہ گزرا ہوا ہر لمحہ ایک بہترین یاد ہے۔ ان کی شفقت ، محبت اور خلوص سے لبریز ان کی ایک ایسی عادت تھی جسے یاد کر کے آج بھی ہم ان کی شفقت، محبت اور خلوص کو محسوس کرتے ہیں۔ انہی یادوں میں سے ایک حسین یاد آپ سے شئیر کرنا چاہوں گی۔ میرے محترم دادا ابو ہمارے علاقے کی جامع مسجد کے امام ، موذن، خطیب اور مہتمم تھے ۔ فجر کی اذان اور نماز کی امامت کے لئے وہ مسجد جاتے تو بہار کے موسم میں جب چنبیلی کے پھول کھلے ہوتے تو وہ مسجد سے واپسی پر چنبیلی کے کچھ تازہ پھول چن کر لے آتے۔ ہم سب بہن بھائی صبح صبح سوئے ہوتے اور وہ اپنے چن کر لائے ہوئے وہ تازہ پھول لا کر ہمارے تکیوں پر رکھ لیتے۔ یوں بہار کے موسم میں ہر روز ہماری آنکھ چنبیلی کے ان تازہ پھولوں کی خوشبو سے کھلتی۔ اور آنکھ کھلتے ہی پہلی نظر ان تازہ پھولوں پڑتی۔ دادا ابو کی محبت سے لبریز چنبیلی کے پھولوں کی تازہ اور ٹھنڈی مہک پورا دن ہمارے دل و دماغ کو مہکائے رکھتی۔ اب بھی ہر روز صبح آنکھ کھلتی ہے تو چنبیلی کے پھولوں کی وہ مہک اپنے ارد گرد محسوس ہوتی ہے۔ اور ہاتھ بے اختیار تکیے کو ٹٹولتا ہے کہ شاید آج بھی تکیے پر دادا ابو ہمارے لئے چنبیلی کے تازہ مہکدار پھول رکھ گئے ہوں۔ مگر اب سوچتی ہوں کہ انسان واقعی بہت بے بس ہے چاہ کر بھی ان لمحات کو واپس نہیں لا سکتا۔ کاش کہ وہ وقت اب بھی لوٹ کر آ سکتا۔ کاش کہ اب بھی صبح آنکھ کھلے تو کمرہ دادا ابو کے لائے چنبیلی کے پھولوں سے مہک رہا ہو اور ہاتھ جب بے اختیار تکیے پر ان پھولوں کو ڈھونڈیں کو خالی نہ لوٹیں۔
دادا ابو کی زندگی پر نظر دوڑاتی ہوں تو ان کی پوری زندگی جدوجہد اور قربانیوں کا استعارہ نظر آتی ہے۔ ان کا پورا نام محمد خان تھا۔ وہ تقسیم بر صغیر سے پہلے 1942 میں پلندری کے گاؤں نمب گوراہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم برصغیر تک اگرچہ وہ بہت کم عمر تھے مگر انہیں اپنے علاقے کے ہندوؤں کے ساتھ گزارے وقت کی ہر بات یاد تھی اور ہمیشہ ہمارے ساتھ تقسیم سے پہلے ہندوؤں کے ساتھ گزارے وقت اور تقسیم کے بعد ہجرت کے واقعات ہمیں سناتے تھے۔ اور اکثر اوقات اپنے بچپن کے ہندو دوستوں کو یاد کر کے افسردہ ہو جاتے۔ دادا ابو کا بچپن سے لے کر اپنی آخری سانس تک تعلیم اور مطالعے سے گہرا شغف رہا ہے۔ بچپن میں ہی ان کے والد محترم محمد امام خان کی وفات کے بعد گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے انہیں اور ان کے بڑے بھائی صوبیدار ریٹائڑد محمد حیات خان کو تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ دادا ابو کی دو بہنیں اور تین بھائی صوبیدار ریٹائڑڈ محمد حیات خان، اور ریٹائڑد ڈپٹی ڈائریکٹر اطلاعات راجہ لطیف حسرت خان ہیں۔ آپ تیرہ سال کی عمر میں راولپنڈی شفٹ ہوئے اور وہاں شعبہ صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ 1965 میں راولپنڈی چھوڑ کر راولاکوٹ آ گئے۔ راولاکوٹ میں آپ کو روزنامہ جنگ ، کوہستان ، امروز ، نوائے وقت اور روزنامہ جسارت کی ایجنسیاں بھی دی گئیں اور آپ ان اخبارات کے نمائندے بھی منتخب ہوئے۔ اگرچہ آپ کم پڑھے لکھے تھے لیکن آپ بہت اچھے تحریر نویس تھے۔ آپ تین سال تک راولاکوٹ میں ان بڑے اخبارات کے واحد نمائندے کے طور پر اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہے۔ تین سال کے بعد آپ دوبارہ راولپنڈی شفٹ ہوگئے اور راولپنڈی میں دوبارہ اخبارات کی صنعت سے ہی وابستہ رہے۔ اس دوران آپ راولپنڈی اخبار فروش یونین کے نائب صدر بھی رہے۔ آپ کی دکان راولپنڈی صدر کامران مارکیٹ کے سامنے مشہور بابو محلہ کے کارنر پر تھی جس کا نام “طارق بک سٹال” تھا۔
موجودہ پونچھ ہاوس کمپلیکس کے پیچھے غازی ملت سردار محمد ابراہیم صاحب کے گھر میں روزانہ کے اخبارات پہنچانا آپ کی ہی ذمہ داری تھی۔ ایک دفعہ آپ کچھ دنوں کے لئے اپنے گاؤں نمب گوراہ واپس آگئے۔ غازی ملت نے اپنے گھر والوں سے مشورہ کیا کہ کیوں نہ اخبارات پہنچانے کی ذمہ داری کسی دوسرے فرد کو دے دی جائے، سردار ابراہیم کی بیگم صاحبہ نے انکار کر دیا اور کہا کہ محمد خان کا تعلق ہمارے اپنے علاقے سے ہے۔ اس لئے جب وہ گھر سے واپس آ جائیں گے تو ہم انہی سے اخبارات لیتے رہیں گے۔ آپ اس دوران ملازم کو بازار بھیج کر اخبارات منگوا لیا کریں۔
راولپنڈی میں آپ جامعہ اسلامیہ میں پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرتے اور اسی مسجد میں قاری سعید الرحمان (جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوری کے وائس چئرمین) کی خطابت و امامت میں نماز جمعہ ادا فرماتے۔ جامعہ اسلامیہ سے آپ کا تعلق بہت گہرا تھا۔ ختم نبوت کی تحریک کے دوران ہر ہفتے نماز جمعہ کے بعد جلوس نکلتا تھا جو راولپنڈی صدر سے ہوتا ہوا جامعہ تعلیم القرآن راجہ بازار جاتا تھا۔ راجہ بازار سے مولانا غلام اللہ خان کی قیادت میں تعلیم القرآن سے بھی بہت بڑا جلوس نکلتا تھا۔ دونوں جلوس مل کر مری روڈ کی طرف سے آنے والے مولانا مفتی محمود صاحب، مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا احمد شاہ نورانی کے جلوسوں سے مل جاتے تھے۔ وہاں سے سب لوگ لیاقت باغ کی طرف روانہ ہو جاتے تھے۔ لیاقت باغ میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد ہوتا تھا جس میں حکومت وقت پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔ دادا ابو جامعہ اسلامیہ سے نکلنے والے جلوس میں میرے والد صاحب کے ساتھ جو اس وقت نو سال کے تھے شرکت کرتے۔ میں سوچتی ہوں کہ وہ لوگ کس قدر خوش نصیب ہیں جو قادیانیوں کے خلاف تحریک میں کسی نہ کسی طرح عملی طور پر شامل رہے اور ان لوگوں کے جذبات کس قدر قابل قدر ہیں جو بین الاقوامی دجالی فتنے کے خلاف دلوں میں موجزن ہوئے تھے۔
1976 میں دادا ابو سعودی عرب چلے گئے ۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران آپ کو بہت دفعہ عمرے اور چھ مرتبہ حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی دوران ہمارے علاقے میں شرک و بدعت کا فتنہ سر اٹھا رہا تھا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے علاقے کی جامع مسجد کی آباد کاری کا مسئلہ درپیش تھا۔ ایسے نازک وقت میں اپنے علاقے سے شرک و بدعت کے خاتمے کے جذبے سے سرشار دادا ابو نے اپنے کاروبار کو چھوڑ کر اپنے گاؤں واپس شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔ اور یہاں
بطور مہتمم، موذن، خطیب اور امام جامع مسجد نمب گوراہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اور بیس سال تک جامع مسجد کے مہتمم، موذن، خطیب اور امام اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کرتے رہے۔ ان بیس سالوں کے دوران آپ نے دین اسلام کی خدمت کے لئے ہر ممکن خدمات سر انجام دیں۔ اس دوران آپ کو علاقے کی کئی معزز شخصیات کا بھرپور تعاون اور اعتماد حاصل رہا جن میں سپرنٹنڈنٹ پولیس سردار اعظم خان ، ریٹائڑد معلم سردار پارس خان، سردار منور خان، صوبیدار ریٹائڑڈ ملک رشید، حاجی لطیف خان اور دیگر شامل ہیں۔ آپ نے نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ ارد گرد کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے مرد، خواتین اور بچوں کو دینی اور قرآنی تعلیمات سے نوازتے رہے۔ آج بھی ہمارے علاقے کا ہر ملنے والا شخص یہی کہتا ہے کہ میں نے قرآن اور دین آپ کے دادا جان سے سیکھا ہے۔
دادا ابو کی زندگی کا ہر لمحہ صبح سے لے اخیر رات تک سنت رسول کے مطابق گزرتا۔ وہ ہر ممکن دین کی ترغیب کے لئے کوشاں رہتے مگر وہ دین میں زبردستی کے قائل نہیں تھے۔ اپنے آخری وقت تک ہر روز صبح نماز فجر کے لئے اٹھتے اور وضو کرنے کے بعد اونچی آواز میں کلمہ شہادت پڑھتے اور ساتھ ہی سب کو آواز دے کر کہتے کہ نماز فجر کا وقت ہو گیا ہے اٹھ جائیں اور نماز پڑھ لیں۔
دادا ابو نے اپنے ساری زندگی انتہائی سادگی اور عاجزی و انکساری سے گزاری۔ وہ دکھاوے کے قائل نہیں تھے۔ وہ نہایت نفاست پسند طبعیت کے مالک تھے۔ اور صفائی اور پاکی کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ مختلف کتب ، اخبارات اور رسائل کے مطالعے سے بے حد دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ مطالعہ کرتے اور اخبارات پڑھتے۔ اور ہر کتاب، اخبار یا رسالہ جو بھی پڑھتے اسے نہایت نفاست کے ساتھ سنبھال کر رکھتے۔ وہ ہمیں سمجھاتے کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ دین اور دنیا دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن یاد رکھو کہ دین اور دنیا الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ بلکہ رب کائنات نے یہ دنیا ہمارے لئے بنائی ہے اور اس میں اپنی زندگی کس طرح گزارنی ہے اس کے لئے ہمیں دین اسلام کی تعلیمات دیں۔ لہذا دنیاوی اور اخروی زندگی میں کامیابی کے لئے دین اسلام ہی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ہمیں رزق حلال کمانے اور حلال کھانے کی تلقین کی۔ اور کہتے تھے کہ میں نے سعودیہ میں قیام کے دوران ہر عمرے اور حج کے دوران اپنے اہل و عیال اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے رزق حلال کی دعا کی ہے۔ وہ ہماری ہر کامیابی پر بے حد خوش ہوتے اور ہمیں بےشمار دعاؤں سے نوازتے۔
دادا ابو کے ساتھ گزارے لمحات اور ان کی یادوں کو اوراق پر سمونے کے لئے بیٹھوں تو کئی سال بھی کم پڑ جائیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے، انہیں اپنی رحمت سے نوازے اور جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔ آمین