بخدمت جناب عزت ماب عمران خان صاحب، چئیرمین پاکستان تحریک انصاف
جناب اعلیٰ،
نہایت ادب سے گزارش ہیکہ سائل 2012 سے تحریک انصاف کا ادنیٰ سا کارکن ہے جو پرامید تھا کہ آپ اقتدار میں آکر پاکستان نہیں تو کم سے کم آزاد کشمیر کی حالت تو سدھار ہی دیں گئے۔
آپ سے امید باندھنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس ملک کے سیاسی منظر نامے میں آپ کے علاوہ کسی اور پر آنکھ ٹھہرتی ہی نہیں۔ باقی سیاسی خاندانوں اور نیوٹرلز کو عرصہ دراز سے آزمایا جا رہا تھا اور ان سے کوئی امید باندھنا “کٹے کے گھر والوں سے لسی ” کی امید کے مترادف ہے۔
چونکہ ریاست آزاد کشمیر کسی نہ کسی صورت میں پاکستان کے ساتھ ہی نتھی ہے تو سائل بھی اس چھوٹے سے خطے کی بہتری کی امید آنکھوں میں سجائے اپنی اسطاعت کے مطابق آپکی جدو جہد کا حصہ رہا۔
سائل کے پاس کوئی اے ٹی ایم تو نہیں تھا لیکن اپنی بساط میں سائل نے آپکی جدوجہد میں ہر ممکن طریقے سے حصہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی۔ دوست احباب سے ناراضگیاں مول لیں، خاندان سے بغاوت کی، رشتہ داریاں خطرے میں ڈالیں لیکن آپکی شخصیت سے بہتری کی امید لگائے آپ کے منشور کے ساتھ کھڑا رہا۔
ایک طویل جدو جہد کے بعد اللہ رب العزت نے آپکو عزت و تکریم سے نوازا اور اقتدار کی مسند پر لا بٹھایا۔
آپ نے جو خواب ہماری آنکھوں میں سجائے تھے وہ سبھی تو پورے نہ ہوئے لیکن پھر بھی اپنی بساط کے مطابق آپ نے اس ملک کیلئے بہت کچھ کیا۔ پھر ایک بیرونی سازش اور اندورونی سہولت کاروں کی مدد سے آپ کی حکومت جاتی رہی اور آپ اور ہم وہیں آ کھڑے ہوئے جہاں 2012 میں تھے۔
اب آگے کیا ہوگا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن سائل آپ کی توجہ ریاست کی دو اکائیوں آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہے جہاں پر اب بھی حکومت تحریک انصاف یعنی آپکی اور ہماری جماعت کی ہے۔
گلگت بلتستان والے تو بیچارے اب بھی ہوا میں ہیں نہ پورے پاکستانی اور نہ پورے ریاستی باشندے لیکن آزاد کشمیر والوں کی حالت میں بھی اب تک کوئی سدھار نہ آسکا، بلکہ حالت اب مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔
سابقہ صدر جماعت جو اب صدر ریاست ہیں، کا کچھ اتا پتا نہیں ہے، بطور صدر ریاست اب تک انکی طرف سے کوئی کمال دیکھنے کو نہیں ملا ما سوائے پروٹوکول سے لطف اندوز ہونے کہ۔
ایک دوسرے “سینئیر موسٹ” صاحب جنھوں نے بریف کیس کو سیڑھی بنایا اور یکدم وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچ گئے اور صرف بیان بازی کی حد تک محدود ہیں۔
نہ کوئی منشور ، نہ کوئی مقصد، نہ موجودہ دور کے تقاضوں سے کوئی آگاہی، نہ ریاست کی بہتری کیلئے کوئی کاوش۔
سمجھ سے باہر ہیکہ انکی تقرری کس بنیاد پر ہوئی تھی؟
ریاستی شہری بنیادی سہولتوں کیلئے ترس گئے ہیں۔
بے تحاشہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود ریاست بجلی کو ترس رہی ہے حضور والا ، کئی کئی ہزار بل ادا کرنے کے باوجود وولٹیج پوری نہیں ہے، گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ عام سی بات ہے۔
حضور والا، ریاستی شہر کچرے کے ڈھیر بنتے جا رہے ہیں، صفائی کا کوئی نظام نہیں ہے، ہسپتالوں کی حالت ابتر ہے، سر عام رشوت لی جا رہی ہے حتی کہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈیلیوری کیلئے سرکاری نوکر 1000 سے 2000 کی رشوت لے رہے ہیں (سائل اس بات کا چشم دید گواہ ہے)۔
پولیس کلچر ویسا کا ویسا ہی ہے، عدالتوں میں بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے، سالوں سے لٹکے ہوئے کیسز لٹک ہی رہے ہیں،
عالیٰ قدر مقام! ریاست میں ٹرانسپورٹ کا نظام جوں کا توں ہے، پرانی کٹھارا گاڑیاں کھڑ کھڑ کرتی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر موت بانٹ رہی ہیں۔
ملاوٹ شدہ اشیاء دھڑلے سے ریاست میں فروخت ہو رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
رشوت ستانی عام ہے، ہر جائز کام کیلئے رشوت حق سمجھ کر مانگا جا رہا ہے۔
ریاست کا ہر نکہ، ہر بنہ، ہر بیر ، ہر ایک کس، ہر ایک رنگڑ نالہ ایک سیاحتی مقام ہے، لیکن وژن سے عاری حاکم وقت چین کی نیند سو رہے ہیں۔ سیاحت سے اربوں روپے کمائے جا سکتے ہیں ، لیکن چونکہ یہ ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے اسلئے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
سیاسی رشوت کے طور پر نالائقوں کی ایک فوج ظفر موج عوامی پیسے پر عیاشیاں کر رہی ہے، لا تعدار مشیر و وزیر ہیں لیکن کام کا ایک بھی نہیں ہے۔ آٹا نا پید ہو رہا ہے، لیکن متعلقہ حکام ستوں پی کر سو رہے ہیں۔
اور سیز کشمیری رل رہے ہیں ، اربوں کا زرمبادلہ بھیجنے والوں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک ہو رہا ہے حضور۔
اور سب سے خطرناک بات کہ حضور والا ریاست کے تشخص کو ختم کیا جا رہاہے۔ ، افغانیوں کو ریاستی شناختی کارڈز جاری کئے جا رہے ہیں ، افغانیوں کو ریاست کا باشندہ بنایا جا رہا ہے حضور اور آپ کے نامزد کردہ مونچھوں والی سرکار کی مونچھوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
اور حضور اگر یہ حاکم وقت کی مرضی اور منشاء سے نہیں ہو رہا تو یقناً اس ملک کے اصل مالک “مال خور” کروا رہے ہونگے۔ تو اگر مال خوروں نے ہی حکومت کرنی ہے حضور تو پھر ان “کاٹھ کے بلوں” کی ضرورت کیا ہے، بہتر ہے انھیں ہی حکومت کرنے دیں اور ہم اسے اپنا نصیب سمجھ کر کسی دوسرے ملک ہجرت کر جاتے ہیں۔
نوٹ تصاویر صرف نشاندہی کیلئے ہیں۔