#تحریر_عبید_سدوزئی
#اے_بے_زبان_جانور_ہم_شرمندہ_ہیں
کچھ دن پہلے مقبوضہ کشمیر میں بندروں کی ایک تنظیم کو ضلع پونچھ اور سدھنوتی سے آزادی کی آوازیں سنائی دی۔جس پر تنظیم نے فیصلہ کیا کہ ایک بندر روانہ کیا جائے جو حالات کا جائزہ لگا کر آئے اگر وہاں آزادی پسند لوگ رہتے ہوں تو ہم سب اسی طرف جا کر آباد ہو جائیںتاہم ایک بندر جب تیتری نوٹ ہجیرہ سے ہوتا ہوا اکھوڑبن دیوی گلی کے ایریا میں پہنچا تو جس نے بھی دیکھا اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ بھاگ نکلا اور نڑول،بٹالہ اور رتی گلی کے جنگلات میں گھومنا شروع ہو گیا۔
رتی گلی میں کچھ لوگوں نے گزرتے دیکھ کر محسوس
کیا کہ یہ شیر ہے یا پھر کوئی اور جنگلی جانور ہے پھر کچھ دن بعد وہی بندر تراڑکھل پہنچ گیا اور وہاں بھی لوگوں نے پکڑنے کی کوشش کی اور وہ بھاگتا ہوا پپے ناڑ
کے جنگل میں داخل ہو گیا پھر وہاں بھی معقول ٹیمیں
کتے بندوقیں لے کر پورا ایریا اس کے پیچھے لگے رہے مگر پکڑنے یا مارنے میں ناکام رہے۔پھر وہ بندر نیریاں شریف دربار پر حاضری لگاتا ہوا واپس پپے ناڑ کے جنگلات اور گاؤں سے گزرنے لگے جس پر معقول ٹیموں نے پھر اس کا پیچھا شروع کر دیا اور اسے گڑالہ کے مقام پر ایک بڑے درخت پر چڑھنے پر مجبور کر دیا۔
بے چارہ بندر کئی دنوں سے بھوکا تھا اور زیادہ بھاگنے کی ہمت بھی نہیں تھی مگر شرپسند معقول ٹیمیں اس کے تعقب میں تھی اور وہ نیچے نا اتر سکا۔کہا جاتا ہے کہ تین دن ایک ہی درخت پر بیٹھا رہا معقول ٹیمیں ہر روز جا کر پتھر مارتیں چھیڑ چھاڑ کرتی اور مزید ڈرا لیتی۔بلآخر کئی دن کا بھوکا اور تین دن سے ایک ہی درخت پر بیٹھا بندر بے یار و مددگار ہونے پر دوسرے درخت تک جمپ نا لگا سکا اور اونچائی سے گر کر زخمی ہوا اور افسوس کہ زخموں کی وجہ سے جان کی بازی ہار گیا۔
یقیناٙٙ! بندر اپنی تنظیم اور قبیلے کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ میرے عزیزو میرے دوستو اور رشتہ دارو یہاں آزادی صرف نعروں میں ہے عملی طور پر بہت زیادہ برے حالات ہیں۔ بارڈر کے اس پار مقبوضہ کشمیر در اصل اصل کشمیر ہے وہاں کے لوگ بہت پرامن ہیں وہاں ہزاروں جانور وہاں ان کی فصلیں تباہ کرتے ہیں اس کے باوجود وہ لوگ قدرت کے پیدا کردا شاہکار اور اس کی مخلوق سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے۔وہاں کے لوگ آزادی کا نام تو لیتے ہیں لیکن آزادی کی حقیقت سے محروم ہیں۔وہ لکھنا چاہتا تھا کہ اے میری قوم میرے قبیلے والو مقبوضہ کشمیر میں انسانوں اور جانوروں کا راستہ منفرد ہے۔جبکہ آزاد کشمیر میں انسانوں کے لیے بنائی گئی سڑکیں وہاں جانوروں کے راستے جیسی ہیں۔
وہ بتانا چاہتا تھا کہ اے میری قوم میرے قبیلے والو جسے تم مقبوضہ کشمیر کہتے ہو وہاں ایک انڈین ایکٹر ایک جانور کے شکار پر کئی ماہ جیل کے چکر کاٹتا ہے اور میں یہاں آزاد کشمیر میں کئی دن سے بھوکا لاغر حالت میں جان کی بازی ہارنے جا رہا ہوں۔اے میری قوم مجھے یہ دکھ ہے کہ ممجھے یہ ظالم لوگ واپس تم تک نہیں پہنچنے دے رہے کہ میں تمہیں یہاں کی کہانی سنا سکوں میں آپ کو بتا سکوں کہ تم مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو بتاو کہ تمہیں غلامی میں بھی جو تعلیم میسر ہے وہ یہاں آزاد ریاست کے لوگوں کو میسر نہیں تم مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بتا سکو کہ وہاں 18میڈیکل کالج موجود ہیں اور کسی جانور کو بھی تکلیف پہنچے تو ریسکیو ٹیمیں اور ڈاکٹر آ پہنچتے ہیں۔تمہارے کتوں کو بھی مسئلہ ہو یا کوئی نقصان پہنچائے تو مقامی پولیس اور دیگر ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں لیکن میں یہاں آزاد کشمیر میں کئی دن سے بے یار و مددگار اپنے خاندان سے دور بھوکا پیاسا ان بازبان جانوروں سے اپنی جان بچاتا چھپتا پھرتا ایک بڑے درخت پر چھپ کر بیٹھا ہوں۔اے میری قوم کے بندرو میں سمجھتا تھا کہ جانور کم عقل اور تعلیم سے آری ہوتے ہیں مگر یہاں تو انسان دینی دنیاوی تعلیم ہونے کے باوجود ایک جانور کو موت کے منہ
تک لے آئے ہیں یہ انسانیت کو کہاں زندہ رہنے دیں گے۔
کاش کے میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بتا سکتا کہ تم ہندوستان کے قبضہ میں نہیں ہو تم ایک ترقی یافتہ معاشرے کا حصہ ہو تم آزادی کے نعرے چھوڑ کر ہندوستان زندہ باد کا نعرے لگاو۔
کاش میں انہیں بتا پاتا کہ تمہیں وہاں 18 میڈیکل کالج یونیورسٹیز 4 ائیرپورٹ اعلیٰ اور معیاری سڑکیں ٹورازم کا فروغ اور بے شمار سہولیات میسر ہیں بلکہ ہندوستان نے وہاں G20 کانفرنس کرکے تمہیں دنیا کے سامنے لایا تم آزاد ہو تم دنیا کی تیسری بڑی معیشت کا حصہ ہو تم بہتر ہو تم آزاد ہو یہاں آزاد کشمیر میں لوگ تعلیم،علاج،سڑکوں اور بے شمار بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔یہاں لوگ بھوکے ہیں پیاسے ہیں یہاں تک کہ جانور کو دیکھ کر اسے موت کے منہ تک لے آئے ہیں اصل آزادی ان لوگوں کو ضرورت ہے ان سب کو چاہیے کہ الحاقِ ہندوستان کی راہیں ہموار کرے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا نعرہ لگائیں اور ترقی یافتہ اور دنیا کی تیسری بڑی معیشت کا حصہ بنیں۔کشمیر مکمل ہندوستان کا حصہ بنے اور ماراجہ کے الحاق کے مطابق کشمیر کا فیصلہ کریں یہاں بھوکے لوگوں کو روزگار دیں تاکہ یہ انسانوں اور جانوروں میں فرق کر سکیں۔
اس بے زبان جانور کا کیا قصور تھا ؟یہ اپنے قبیلے کے لیے آزادی دیکھنے آیا تھا۔اُسے کیا معلوم تھا کہ یہاں انسان انسان کو برداشت نہیں کرتا جانوروں کو کہاں برداشت کرتا ہے۔اس خوبصورت جانور کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے درمیان سے جہالت کیوں نہیں گئی؟ ہم کب سمجھیں گے ہمیں اس دنیا پر امن و آمان سے رہنے کا حکم ملا ہے۔وہ اللّٰہ کی ذات جس نے تمام نعمتوں سے نوازا ہے اس نے زندگی گزارنے کا طریقہ بھی وضع کیا ہے ۔وہ رب اگر دوسرے کی زمین سے ایک تیلی اُٹھانے پر حساب لے گا تو وہ اس بے زبان جانور کو موت کے منہ تک لانے پر کیسے معاف کر سکتا ہے۔ہم سب اجتماعی طور پر ظالم ہیں شدت پسند ہیں متعصب ہیں ۔ہم سب کو توبہ کی ضرورت ہے اللّٰہ پاک اس بے زبان جانور کی ہائے سے سب کو محفوظ رکھے۔آمین
Load/Hide Comments